Logo

سی پیک گلگت بلتستان کے لیے ترقی یا تباہی؟

Zahir ud din

August 29, 202510 views

سی پیک گلگت بلتستان کے لیے ترقی یا تباہی؟
سی پیک جو بظاہر پاکستان کی معاشی ترقی کا ایک بڑا منصوبہ تصور کیا جاتا ہے گلگت بلتستان کے تناظر میں ایک مختلف حقیقت پیش کرتا ہے۔ جب اس منصوبے کی ابتدا ہوئی تو امیدیں کی گئیں کہ یہ گلگت بلتستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امیدیں مایوسی میں بدلتی گئیں گلگت بلتستان جو قدرتی حسن ماحولیاتی توازن اور پُرامن فضا کے لیے مشہور تھا آج سی پیک کے اثرات کی بدترین مثال بن چکا ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ نہ صرف ان کی صحت اور روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ اس خطے کے قدرتی سرمائے کو بھی تباہی کی دہلیز پر لے جا چکے ہیں۔ سی پیک کے راستے سے روزانہ کی بنیاد پر چین سے ہیوی گاڑیاں اور کنٹینرز خنجراب کے مقام سے داخل ہوتے ہیں ان بھاری بھرکم گاڑیوں کے دھویں سے فضائی آلودگی میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ دھواں نہ صرف انسانوں بلکہ فصلوں، پھلوں، پھولوں، جنگلی حیات اور چرند پرند سب کو متاثر کر رہا ہے وہ علاقے جو کبھی سکون اور خاموشی کے لیے جانے جاتے تھے اب مسلسل شور کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ہوا میں مسلسل زہریلی گیسوں کے اخراج نے مقامی بزرگوں اور حساس افراد کو سانس کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کا موسم نہایت حساس ہے اور یہاں کے گلیشیئرز، جو پورے پاکستان کے پانی کے ذخائر کا واحد ذریعہ ہے درجہ حرارت میں معمولی تبدیلی پر بھی ردعمل دیتے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے جو ماحولیاتی دباؤ پیدا ہوا ہے اس نے ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ مقامی لوگ جنہیں کبھی گلیشیئرز سے پانی کی فراہمی میسر تھی اب انہیں کبھی سیلاب اور کبھی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تبدیلیاں قدرتی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر پالیسی سازی کی فقدان کے باعث جنم لیتے ہیں ہیوی ٹریفک کی آمد کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر و توسیع بھی کی گئی جس کے لیے ہزاروں درختوں کو کاٹ دیا گیا ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی نے مقامی ماحولیاتی نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ درخت صرف خوبصورتی یا سایہ نہیں دیتے بلکہ وہ فضاء کو صاف کرتے ہیں، زمین کو کٹاؤ سے بچاتے ہیں، اور مقامی ایکو سسٹم کو متوازن رکھتے ہیں۔ اب جب یہ سب کچھ ختم ہو رہا ہے تو اس کے اثرات زمین کے کٹاؤ، بارش کے نظام اور زرعی زمینوں کی زرخیزی پر بھی پڑ رہے ہیں۔ ایک اور تشویشناک پہلو انسانی صحت کا ہے۔ مسلسل آلودگی، شور، گردوغبار اور گاڑیوں کی دھوئیں سے سانس کی بیماریاں، دمہ، پھیپھڑوں کے امراض اور جلدی حساسیت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی صاف اور شفاف فضا میں سانس لیتے تھے، اب ماسک کے بغیر باہر نکلنے سے کتراتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات کی کمی ان بیماریوں کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ سی پیک کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ اس منصوبے سے مقامی معیشت کو فائدہ ہوگا، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ مگر آج صورتحال اس کے برعکس ہے۔ زیادہ تر تجارتی سرگرمیاں غیر مقامی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہیں، اور مقامی مزدور یا ہنرمند طبقہ ان منصوبوں سے استفادہ نہیں کر پا رہا۔ معیشت پر بوجھ بڑھ گیا ہے، لیکن فائدہ کہیں اور جا رہا ہے۔ سی پیک کے نام پر جو بھی ترقی ہو رہی ہے، وہ مقامی لوگوں کو شریک کیے بغیر ہو رہی ہے، اور یہی ان کے احساس محرومی کو جنم دے رہا ہے۔ ثقافتی لحاظ سے بھی یہ خطہ شدید دباؤ میں ہے۔ بیرونی عناصر کی یلغار سے نہ صرف مقامی روایات بلکہ زبان، طرزِ زندگی اور سماجی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ مخصوص اقدار اور سادہ طرزِ زندگی جو اس خطے کی پہچان تھی وہ اب تجارتی دوڑ میں گم ہوتی جا رہی ہے۔ ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گلگت بلتستان سی پیک سے فائدہ نہیں بلکہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا خطہ بن چکا ہے۔ لیکن اس تمام صورت حال کا ایک اور اہم پہلو بھی ہے جسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور وہ ہے حکومتی سطح پر موثر کنٹرول اور پالیسی سازی کی شدید کمی چین سے آنے والی ہیوی گاڑیوں کی تعداد پر نہ کوئی حد مقرر ہے اور نہ ہی ان کے اخراج کو کنٹرول کرنے کا کوئی مؤثر نظام موجود ہے۔ یہ گاڑیاں بغیر کسی فٹنس معیار اخراج معائنہ یا رفتار کی نگرانی کے داخل ہو رہی ہیں، جو ایک سنگین ماحولیاتی خطرہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر چین سے آنے والی گاڑیوں کے لیے ایک جامع اور سخت ضابطہ اخلاق ترتیب دے۔ فٹنس سرٹیفکیٹ، ایندھن کے معیار اور شور و دھواں کی مقدار کو قانونی دائرہ کار میں لایا جائے۔ اس کے علاوہ، گلگت بلتستان جیسے حساس ماحولیاتی خطے کو خصوصی زون قرار دیا جائے جہاں کسی بھی بیرونی منصوبے سے پہلے ماحولیاتی جائزہ لازم ہو۔ مقامی لوگوں کو ان منصوبوں میں شامل کرنا ان کی ضروریات کو اہمیت دینا اور ان کی زمین و وسائل کا تحفظ کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے۔ حکومتِ پاکستان متعلقہ ادارے اور چین کی حکومت کو مشترکہ طور پر فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ سی پیک واقعی ایک ترقیاتی منصوبہ بنے نہ کہ ایک ماحولیاتی سانح
← Back to All Articles