خودکشی: ایک خاموش المیہ اور اجتماعی ذمہ داری
Zahir ud din
June 14, 2025•97 views
ودکشی: ایک خاموش المیہ اور اجتماعی ذمہ داری | تحریر: ظاہر الدین
پہاڑ خاموش ہوتے ہیں، مگر ان کی خاموشی میں وہ صدائیں گونجتی ہیں جو اکثر انسانوں کی چیخوں سے بلند ہوتی ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال جیسے خوبصورت مگر تنہائی میں ڈوبے ہوئے خطے ہمیں ایک ایسا آئینہ دکھاتے ہیں جہاں قدرت کا حسن آنکھوں کو لبھاتا ہے، مگر دلوں میں ایک ایسی اداسی پلتی ہے جو الفاظ سے زیادہ گہری، اور آنکھوں کی نمی سے زیادہ پُراثر ہوتی ہے۔
یہاں کے نوجوان، جو تعلیم، امید، محبت اور خوابوں کا سرمایہ رکھتے ہیں، کب اور کیسے اس مقام پر آ جاتے ہیں کہ زندگی انہیں ایک بوجھ لگنے لگتی ہے؟ ایک چھوٹی سی بستی، ایک تنگ سی گلی، ایک برف میں ڈھکی چوٹی پر رہنے والا نوجوان اگر اپنی جان لے لے تو ہم کیا کہیں؟ یہ صرف ایک سانحہ نہیں، یہ ایک اجتماعی سوال ہے۔ ایک ایسا سوال جو خاموشی سے ہمارے ضمیر پر دستک دیتا ہے۔
یہاں نہ صرف تعلیم کے مواقع محدود ہیں، بلکہ ذہنی صحت کی سہولیات تقریباً ناپید ہیں۔ نفسیاتی مدد، مشاورت، یا جذباتی تربیت جیسے تصورات ابھی تک ان علاقوں میں اجنبی سمجھے جاتے ہیں۔ ایک نوجوان اگر اندر سے ٹوٹ رہا ہو تو اس کے پاس نہ کوئی سننے والا ہوتا ہے، نہ کوئی سمجھنے والا۔ وہ یا تو روایتی غیرت کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، یا تنہائی کے اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔
اور پھر ایک اور پہلو۔محبت کی ناکامی۔ جو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، مگر خاموشی سے نوجوان دلوں کو گھائل کر دیتا ہے۔ یہاں جہاں محبت کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، وہاں ایک نوجوان کا کسی سے دل لگا لینا، یا کسی لڑکی کا کسی خواب میں کسی کا چہرہ دیکھ لینا، سماجی تضحیک اور رکاوٹ کا باعث بن جاتا ہے۔ اکثر وہ رشتے جو زندگی کا سہارا بن سکتے تھے، معاشرتی پابندیوں، ذات برادری کے تعصبات، یا والدین کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ایک لڑکا جو ساری زندگی کسی کی آنکھوں میں جینے کی امید باندھتا ہے، جب اُسے وہ چہرہ نہیں ملتا — اور اُسے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی — تو وہ صرف دل نہیں توڑتا، خود کو بھی ٹوٹا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور ایک لڑکی، جو خواب میں کسی کے ساتھ جینے کی خواہش رکھتی ہے، جب خاندان کی عزت اور روایتوں کی دیوار سے ٹکرا کر بکھر جاتی ہے، تو اُسے اپنی ذات کی زمین ہی کھسکتی محسوس ہوتی ہے۔
یہ وہ جذباتی خلا ہے جسے کوئی نہیں سمجھتا۔ جس پر بات کرنا، یہاں کے معاشرتی دائرے میں "گناہ" کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دکھ، یہ حسرت، اندر ہی اندر ناسور بن جاتی ہے — اور کبھی کبھار انسان اُسے ختم کرنے کے لیے خود کو ختم کر دیتا ہے۔
خاندان اکثر جذباتی مسائل کو کمزوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ "مرد بنو"، "برداشت کرو"، "کیا دنیا میں صرف تمھیں مسئلے ہیں؟" جیسے جملے یہاں روزمرہ گفتگو کا حصہ ہیں۔ ایک بچی جو خواب دیکھتی ہے کہ ڈاکٹر بنے گی، اسے اگر خاندان یا رسم و رواج کا قید کر دے، یا ایک نوجوان جو شہر جا کر پڑھنا چاہتا ہے، اسے غربت روک دے، تو وہ صرف خواب نہیں ٹوٹتے، شخصیت بھی چکناچور ہو جاتی ہے۔
پھر سوشل میڈیا کا وہ پہلو بھی ہے جس نے یہاں کے نوجوانوں کو بیرونی دنیا سے جوڑ تو دیا، مگر اس جوڑ میں ایک درد چھپا ہے۔ جب ایک بچہ اپنی سادگی میں بڑے شہروں کے طرزِ زندگی کو دیکھتا ہے تو احساس کمتری کا بیج اس کے دل میں بویا جاتا ہے۔ وہ اپنی ثقافت، رہن سہن، اور ماحول کو کمتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ تنہا ہو جاتا ہے، اور یہ تنہائی پہاڑوں سے بھی بھاری ہوتی ہے۔
گلگت بلتستان اور چترال کے خطے اگرچہ امن، خوبصورتی اور محبت سے بھرے ہوئے ہیں، مگر یہاں کے لوگ احساس کی شدت میں جیتے ہیں۔ یہاں کسی کی خاموشی بھی ایک کہانی ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔ جب ایک بچہ اسکول میں ذہنی دباؤ سے لڑتا ہے، جب ایک لڑکی معاشرتی تنگ نظری سے گھٹتی ہے، جب ایک نوجوان روزگار کے لیے بے سمت ہوتا ہے۔تب زندگی ایک سوال بن جاتی ہے۔ اور جب جواب نہیں ملتا، تو وہی زندگی انجام بن جاتی ہے۔
ہمیں یہاں صرف ہسپتال نہیں، جذباتی علاج گاہیں بھی بنانا ہوں گی۔ ہمیں صرف اسکولوں میں تعلیم نہیں، احساس کی تربیت بھی دینا ہوگی۔ والدین، اساتذہ، علماء، اور مقامی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ خودکشی صرف کفن اور جنازے کا معاملہ نہیں، یہ ایک سماجی شکست ہے۔ ایک ایسا المیہ ہے جس کی جڑیں ہمارے رویوں، ناواقفیت، اور لاپرواہی میں ہیں۔
اگر آج ہم نے ان خاموش چیخوں کو نہ سنا، تو کل ہمارے پہاڑوں میں گونجنے والی آوازیں صرف ہوا کی سرسراہٹ نہیں ہوں گی، بلکہ وہ ان نوجوانوں کی بے بسی ہوگی جنہیں ہم بچا سکتے تھے — مگر ہم نے نہیں بچایا۔
آئیے، پہاڑوں کی خوبصورتی کے ساتھ وہاں کے دلوں کی گہرائی کو بھی محسوس کریں۔ آئیے، ہم سنیں، سمجھیں، سہارا دیں۔ تاکہ کوئی اور بچہ، کوئی اور لڑکی، کوئی اور خواب... خاموشی میں دفن نہ ہو